عالمی حدت سے انسانی صحت پر پڑنے والے اثرات پر قابو پانے کے مطالبات کی وجہ سے اگلے ہفتے شروع ہونے والے اقوام متحدہ کے موسمیاتی مذاکرات کا پہلا دن اس مسئلے کے لیے وقف کر دیا گیا ہے۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق شدید گرمی، فضائی آلودگی اور مہلک متعدی بیماریوں کا بڑھتا ہوا پھیلاؤ صرف چند وجوہات ہیں جن کی وجہ سے عالمی ادارہ صحت نے ماحولیاتی تبدیلی کو انسانیت کو درپیش صحت کا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔
ڈبلیو ایچ او کے مطابق گلوبل وارمنگ کے صحت پر تباہ کن اثرات کو روکنے اور موسمیاتی تبدیلی سے ہونے والی لاکھوں اموات کو روکنے کے لیے پیرس معاہدے کے تحت عالمی حدت کو 1.5 ڈگری سیلسیس کے ہدف تک محدود رکھا جانا چاہیے۔تاہم اقوام متحدہ نے رواں ہفتے کہا کہ دنیا اس صدی میں 2.9 سینٹی گریڈ تک گرم ہونے کے راستے پر ہے۔ اگرچہ کوئی بھی موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے مکمل طور پر محفوظ نہیں رہے گا، لیکن ماہرین کا خیال ہے کہ سب سے زیادہ خطرہ بچوں، خواتین، بوڑھوں، تارکین وطن اور کم ترقی یافتہ ممالک کے لوگوں کو ہوگا، جنہوں نے سب سے کم گرین ہاؤس گیسز خارج کی ہیں۔ 3 دسمبر کو دبئی میں ’کوپ 28‘ مذاکرات میں پہلے ’ہیلتھ ڈے‘ کی میزبانی کی جائے گی۔ توقع ہے کہ یہ سال گرم ترین ہوگا اور جیسے جیسے دنیا گرم ہوتی جارہی ہے، اس سے بھی زیادہ اور تواتر کے ساتھ شدید گرمی کی لہریں آنے کی توقع ہے۔ محققین نے کہا ہے کہ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے گذشتہ سال موسم گرما کے دوران یورپ میں 70 ہزار سے زیادہ اموات ہوئیں جو اس سے پہلے 62 ہزار تھیں۔ لانسیٹ کاؤنٹ ڈاؤن کا تخمینہ ہے کہ 2050 تک درجہ حرارت میں 2 ڈگری سیلسیز اضافے کے بعد ہر سال گرمی سے پانچ گنا زیادہ لوگ مر جائیں گے۔ دریں اثنا طوفان، سیلاب اور آگ دنیا بھر میں لوگوں کی صحت کے لیے خطرہ بنے رہیں گے۔