آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا اپنی تقریروں میں اسلامی حوالے دینا بہت اچھا لگتا ہے۔ اسلام کے نام پر قائم ہونے والےپاکستان کا صدر ہو، وزیراعظم ہو، جرنیل ہوں، وزیر، مشیر، گورنر، وزرائے اعلیٰ، ممبران پارلیمنٹ یا اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری افسران، ان سب کیلئے لازم ہونا چاہئے کہ اُن کا اسلام سے متعلق علم عام پاکستانیوں سے زیادہ ہو۔ یہ اس لیے ضروری ہے کہ ہمارے فیصلے، ہمارے قوانین، ہماری پالیسیاں سب اسلام کی تعلیمات کے مطابق ہوں۔
ہماری موجودہ صورتحال بہت خراب ہے۔ پاکستان اسلام کے نام پر قائم تو ہوگیا، اسلامی آئین بھی دے دیا گیا، بار بار اسلام کا نام بھی لیا گیا لیکن ہمارے قوانین، ہماری پالیسیاں دیکھیں، ہمارا ماحول، ہمارا میڈیا، ہماری معیشت، ہماری پارلیمنٹ، ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں پر نظر ڈالیں تو پتا چلے گا کہ اسلامی نظام کے نفاذ کیلئے کوئی سنجیدہ کوشش آج تک نہیں ہوئی، جس کے نتیجے میں ہم ایک Confusedقوم بن چکے ہیں۔ نام اسلام کا لیتے ہیں جبکہ نقالی مغربی کلچر کی کررہے ہیں۔
ہمارے آئین کی تو منشاء ہے کہ پارلیمنٹ کے مسلمان ممبران باعمل مسلمان ہوں، اسلامی تعلیمات کے بارے میں کافی علم رکھتے ہوں اور کسی بڑے گناہ کی وجہ سے نہ جانے جاتے ہوں۔یہ بھی تمام ممبران کیلئے لازم ہے کہ وہ پاکستان کے اسلامی نظریے کا دفاع کرتے ہوں۔ حقیقت میں کیسے کیسے لوگ پارلیمنٹ میں آتے ہیں یہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ آئین کی اسلامی شقوں کی کھلے عام خلاف ورزی ہوتی ہے لیکن کوئی بولتا نہیں۔
ہمارے کئی اراکینِ پارلیمنٹ پاکستان کے اسلامی نظریےکی مخالفت کرتے ہیں ، کئی سیکولر پاکستان کی بات کرتے ہیں لیکن آئین کی منشاء کے خلاف جانے کے باوجود اُن کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس ماحول میں ایک حافظ قرآن جنرل کا آرمی چیف بننا اور اُن کی طرف سے اپنی ہر تقریر میں اسلامی تعلیمات کا بڑے فخر سے حوالہ دینا بہت خوش آئندہے ،جس کی ہم سب کو حوصلہ افزائی کرنی چاہئے۔
میری آرمی چیف جنرل عاصم منیر سے گزارش ہے کہ وہ پاک فوج میں اسلامی تعلیمات کے فروغ کیلئے اقدامات کریں۔ اس سلسلے میں ،میں سابق نیول چیف ایڈمرل ظفر محمود عباسی کی مثال دوں گا جنہوں نے اپنے تین سالہ دور میں پاکستان نیوی میں ایسا انقلاب برپا کیا جو نہ صرف قابلِ تحسین بلکہ قابلِ تقلید بھی ہے۔ ایڈمرل عباسی کی ہدایت پر پاک بحریہ اور بحریہ فاؤنڈیشن کے تحت چلنے والے تمام اسکولوں میں قرآن حکیم کو فہم کے ساتھ لازمی طور پر پڑھایا جا نے لگا ،جس کیلئے پرانے اساتذہ کی تربیت کی گئی اور نئے استاد بھی بھرتی کئے گئے۔
اس کے ساتھ ساتھ بحریہ کے رہائشی علاقوں میں قرآن سینٹرز کھولے گئے جہاں بچوں، بڑوں اور بوڑھوں، سب کو قرآن حکیم کی فہم کے ساتھ تعلیم ، اسلامی اقدار کے فروغ اور مغرب کی ذہنی غلامی سے چھٹکارے پر زور اور تربیت دینے کے اقدامات کیے گئے۔ اسلامی لباس اور اسلامی شعائر کو اپنانے پر زوردیا گیااور طلبہ کو بالخصوص علامہ اقبال کے فکری انقلاب سے روشناس کروانے کیلئے بھی کام کیا گیا۔
پاک بحریہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ Religious Motivation Officers بھرتی کئے گئے۔ اِن افسران نے بہترین دینی اور دنیاوی تعلیم حاصل کی ہوئی ہے اور نیول اکیڈمی کے تربیت یافتہ ہیں۔ اِن Religious Motivation Officers کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ نیول افسران اور ماتحت اہلکاروں کی اسلامی تعلیمات کے مطابق زندگی گزارنے کے حوالے سے حوصلہ افزائی کریں۔ اِن افسران کو نیوی کے جہازوں میں بھی افسران اور ماتحت اہلکاروں کی اسلامی اصولوں کے مطابق تعلیم و تربیت کیلئے بھیجا گیا۔ اِن افسران کی یہ بھی ذمہ داری لگائی گئی کہ خطبہ جمعہ دیں اور دورِ حاضر کے ایشوز پر دسترس رکھتے ہوئے عوام کی اسلامی تعلیمات کی روشنی میں رہنمائی کریں۔
سابق نیول چیف کے دور میں بحریہ کے تحت چلنے والی تمام مساجد کی بہترین انداز میں تزین و آرائش بھی کی گئی جبکہ خطیبوں اور ائمہ مساجد کی تعداد ماضی کے مقابلے میں د گنا کر دی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان نیول اکیڈمی کے کیڈٹس کیلئے عربی زبان کی تعلیم کو لازم کر دیا گیا ہے۔ خواتین کو پردہ کرنے کی ترغیب دینے، اُن کیلئے خصوصاً پڑھاتے وقت اعضائے ستر کو چھپا کر رکھنے، جبکہ مردوں کو نگاہوں کی حفاظت کرنے اور شائستگی اپنانے کی بھی ہدایات جاری کی گئیں۔ پروموشن کیلئے پاک بحریہ کے افسران کے کردار کو اہمیت دی جانے لگی یعنی اگر کوئی افسر چاہے کتنا ہی قابل اور لائق کیوں نہ ہو اگر باکردار نہ ہو تو اُسے ترقی نہیں دی جاتی۔
امید ہے کہ موجودہ نیول چیف کے دور میںبھی یہ پالیسیاں پاکستان نیوی میں جاری و ساری رہیں گی۔ میں ماضی میں اپنے کالمز کے ذریعے یہ گزارش پاک فوج اور ائیرفورس کی اعلیٰ قیادت سے بھی کر چکا ہوں کہ پاکستان نیوی کی طرح اُنہیں بھی یہ اقدامات اپنی اپنی فورس میں کرنے چاہئیں۔ اس سلسلے میں آرمی چیف سے امید اس لیے زیادہ ہے کیوں کہ وہ خود اسلامی تعلیمات کی اہمیت کو کسی عام فرد سے بہت زیادہ سمجھتے ہیں۔