سینئر تجزیہ کار اور صحافی انصار عباسی کا کہنا ہے سپریم کورٹ کی جانب سے ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ کالعدم قرار دیے جانے کے بعد ایسا لگ رہا ہے کہ آئندہ انتخابات میں نواز شریف اور عمران خان مائنس ہی رہیں گے۔
جیو نیوز کی اسپیشل ٹرانسمیشن میں سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ پر تجزیہ پیش کرتے ہوئے انصار عباسی کا کہنا تھا بدقسمتی سے پاکستان کی حکومتیں اور پارلیمنٹ کی جانب سے قانون سازی ہوتی ہے تو بڑی بدقسمتی کی بات ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے اس پر بھی سیاست نظر آتی ہے اور حالیہ کچھ ماہ میں یہ سیاست بہت زیادہ عروج پر پہنچ گئی ہے۔
ان کا کہنا تھا پرسوں قومی اسمبلی تحلیل ہوئی اور آج سپریم کورٹ نے ریویو ایکٹ کو کالعدم قرار دیدیا جو نواز شریف کا مائنس سے پاکستانی سیاست میں واپسی کا رستہ کھول رہا تھا، یعنی ان کے پاس موقع تھا کہ وہ اپنی نااہلی کے خلاف درخواست پر اپیل دائر کر سکتے تھے، اس فیصلے سے وہ رستہ روک دیا گیا ہے۔
انصار عباسی کا کہنا تھا لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اب بھی نواز شریف کے پاس ایک موقع ہے جو الیکشن ایکٹ میں ترمیم کی گئی تھی جس کے تحت نااہلی زیادہ سے زیادہ 5 سال کے لیے ہو گی، وہ موقع ابھی موجود ہے لیکن اس کے لیے بھی سپریم کورٹ جانا پڑے گا۔
ان کا کہنا تھا دو قوانین تھے ایک سپریم کورٹ سروسز اینڈ پروسیجر ایکٹ جو ابھی بنا نہیں تھا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اسے روک دیا تھا، یہ بہت ہی انہونی چیز تھی کیونکہ بل بھی بنا نہیں تھا اور ابھی پارلیمنٹ میں اس پر بات چیت چل رہی تھی اس پر اسٹے دے دیا گیا تھا۔
سینئر صحافی نے مزید کہا کہ اس کے بعد پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ ریویو آف آرڈرز اینڈ ججمنٹس ایکٹ لایا گیا جس کا مقصد کچھ اور بھی ہو گا لیکن یقینی طور پر اس کا مقصد یہی تھا کہ نواز شریف کو پاکستانی سیاست میں مائنس سے پلس کیا جائے، اب جو صورت حال نظر آ رہی ہے کہ سیشن جج نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل کیا تو کچھ دنوں بعد ہی سپریم کورٹ نے ایسے وقت میں نواز شریف سے متعلق فیصلہ دیا کہ اگر حکومت یا ن لیگ یا کوئی بھی ریویو پٹیشن فائل کرے تو اس وقت بھی عمر عطا بندیال ہی چیف جسٹس پاکستان ہی ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اگر پی ٹی آئی کو سیشن جج پر اعتراض تھا تو پی ڈی ایم اور بالخصوص ن لیگ کو سپریم کورٹ کے اس بینچ پر بھی کئی اعتراضات رہے ہیں، یہ بہت ہی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہمارے ادارے ہمیشہ سے ہی سیاست میں مداخلت کرتے رہے ہیں اور اس فیصلے کے بعد مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ آئندہ انتخابات اگر 90 روز میں ہوتے ہیں تو پی ٹی آئی اور ن لیگ کی ٹاپ لیڈر شپ چاہیے وہ عمران خان ہوں یا نواز شریف دونوں مائنس ہی رہیں گے۔