برطانیہ میں 10 سالہ پاکستانی بچی کے قتل کے معاملے پر تین افراد کی بین الاقوامی سطح پر تلاش کا کام جاری ہے۔
پولیس کے مطابق انھیں 10 اگست کی صبح اطلاع ملی تھی کہ انگلینڈ کی کاؤنٹی سرے کے قصبے ووکنگ کے ایک گھر میں بچی مردہ حالت میں پائی گئی۔
پولیس کے مطابق تفتیش آگے بڑھانے کے لیے بچی کا پوسٹ مارٹم بھی کیا جائے گا تاہم اس معاملے میں ابھی تک کوئی گرفتاری عمل میں نہیں آئی۔
پولیس کے مطابق جن تین افراد کو تلاش کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، وہ بچی سے واقف تھے تاہم وہ گزشتہ روز برطانیہ چھوڑ کر جا چکے ہیں۔
پولیس فورس ان کی تلاش کے لیے بین الاقوامی حکام کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہے۔
بچی کی لاش 10 اگست کو مقامی وقت کے مطابق تقریباً دو بج کر 50 منٹ پر ان کے خالی گھر سے ملی تھی۔
بچی کی والدہ نے برطانیہ کے اخبار ’دا سن‘ کو انٹرویو میں کہا کہ ان کی زندگی اب ’کبھی پہلے جیسی نہیں ہو سکتی۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’میری بیٹی ایک کمال لڑکی تھی جو ابھی بہت چھوٹی تھی۔‘
’میں اسے واپس لانے کے لیے کچھ نہیں کر سکتی لہذا میں صرف اس اچھے وقت کو یاد کر سکتی ہوں جو میں نے اس کے ساتھ گزارا۔‘
گھر کے بالکل سامنے رہنے والے ایک پڑوسی نے صحافیوں کو بتایا کہ چھ بچوں کے ساتھ ایک پاکستانی خاندان چھ ماہ سے بھی کم عرصے سے اس پراپرٹی میں مقیم تھا۔
ایک اور پڑوسی نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’بچی عموماً اپنے چھوٹے بھائی بہنوں اور خاص طور پر سب سے چھوٹے بچے کی دیکھ بھال میں مدد کرتی نظر آتی تھی۔‘
اس قتل پر مقامی کمیونیٹیز میں سخت تفتیش پائی جا رہی ہے اور ان کی جانب سے صدمے کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔
سرے کی مقامی شاہ جہاں مسجد کے امام حافظ ہاشمی نے کہا کہ وہ اس واقعے کے بعد سے سو نہیں پا رہے۔
انھوں نے بی بی سی ریڈیو کو بتایا کہ ’ہم بے حد صدمے اور افسوس میں ہیں، یقین نہیں آتا کہ ایسی معصوم بچی کے ساتھ بھی ایسا کچھ ہو سکتا ہے۔‘
ان کے مطابق ’ہمیں علم نہیں کہ اس کی موت کن حالات میں ہوئی، اس لیے ہم اس بچی کی روح کے سکون کے لیے دعا گو ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ ہم ان کی موت کے بارے میں حقائق جاننے میں کامیاب ہو جائیں تاکہ اس پیاری بچی کی روح کو سکون مل سکے۔‘
بچی کی موت کے بارے میں مسجد سے ایک سرکاری بیان بھی جاری کیا گیا، جس میں کہا گیا کہ ’بچی کی المناک موت سے دل صدمے اور گہرے غم سے بوجھل ہے، جس کی گزشتہ ہفتے جان لے لی گئی۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’مشکل اور آزمائش کی اس گھڑی میں ہماری دعائیں اور تعزیت بچی اور ان کے چاہنے والوں کے ساتھ ہیں۔‘
ایک مقامی چرچ ’سینٹ میری دی ورجن‘ گزشتہ جمعے سے کمیونٹی کے اراکین کے لیے کھولا گیا ہے جہاں بچی کی دعائے مغفرت کے لیے لوگ آ رہے ہیں اور ان کے لیے پھولوں کے نذرانے بھی رکھے جا رہے ہیں۔
پچھلے ہفتے اس پراپرٹی میں پولیس کی بھاری نفری موجود تھی۔ بچی کے قتل کی باضابطہ شناخت ابھی باقی ہے اور تفتیش کار اب بھی اس پراپرٹی پر موجود ہیں۔