پاکستانی اداکارہ صبا قمر نے گذشتہ روز اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پوسٹ میں بتایا کہ متحدہ عرب امارات نے انھیں گولڈن ویزہ جاری کر دیا ہے جس پر وہ یو اے ای حکام کی شکرگزار ہیں۔
صبا قمر کی جانب سے یہ پوسٹ کیے جانے کے بعد جہاں ان کے بہت سے فالوورز انھیں مبارکباد دیتے نظر آئے وہیں بہت سے صارفین نے یہ سوال بھی پوچھا کہ گولڈن ویزا کیا ہوتا ہے اور کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے؟
واضح رہے کہ مئی 2019 میں متحدہ عرب امارات کے نائب صدر اور دبئی کے حکمراں شیخ محمد بن راشد نے گولڈن ویزا سکیم کا اعلان کیا تھا۔
درحقیقت گولڈن ویزا ایک دس سالہ رہائشی کارڈ ہے اور اس کے اجرا کے موقع پر یو اے ای کے نائب صدر نے کہا تھا کہ ’ہم نے سرمایہ کاروں، انتہائی قابل ڈاکٹروں، انجینیئروں، سائنسدانوں اور فنکاروں کو مستقل رہائش دینے کے لیے گولڈن کارڈ سکیم کو لانچ کیا ہے۔‘گولڈن کارڈ کا مقصد متحدہ عرب امارات میں سرمایہ کرنے والوں، بین الاقوامی اہمیت کی حامل بڑی کمپنیوں کے مالکان، اہم شعبوں کے پیشہ ور افراد، سائنس کے میدان میں کام کرنے والوں اور باصلاحیت طلبہ کو متحدہ عرب امارات کی ترقی میں شامل اور متوجہ کرنا ہے۔
گولڈن ویزا رکھنے والوں کو بہت سے فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یو اے ای حکام کے مطابق اس ویزے کے حامل افراد کو اپنے کاروبار کی سو فیصد ملکیت حاصل ہوتی ہے، اس سے قبل چھ ماہ تک ملک (یو اے ای) سے باہر رہنے والوں کا حق رہائش ختم کر دیا جاتا تھا لیکن دس سالہ گولڈن ویزا سکیم میں یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی۔ اس سکیم کے تحت تارکین وطن کے گھریلو مددگاروں کی تعداد کی حد کو ہٹا دیا گیا ہے۔
نئی سکیم کے تحت گولڈن ویزا رکھنے والے اپنے شریک حیات اور کسی بھی عمر کے بچوں کی یو اے ای میں کفالت کر سکتے ہیں۔ اگر گولڈن ویزا ہولڈر کی موت ہو جاتی ہے، تب بھی اس کے خاندان کے افراد ویزا کی مدت ختم ہونے تک وہاں رہ سکتے ہیں۔
گولڈن ویزا کے تحت سائنس، انجینئرنگ، میڈیسن، آئی ٹی، بزنس، ایڈمنسٹریشن اور ایجوکیشن سے متعلقہ ہنر مندوں کو متحدہ عرب امارات میں رہائش کی اجازت ہوتی ہے۔
اس سے پہلے ایسے پیشہ ور افراد کو وہاں رہنے کے لیے ہر ماہ 50 ہزار درہم کمانا ضروری ہوتا تھا تاہم اکتوبر 2022 میں اس شرط میں ترمیم کرتے ہوئے اس کو کم کر کے 30 ہزار درہم کر دیا گیا تھا۔
یاد رہے کہ گذشتہ سال اکتوبر میں متحدہ عرب امارات کی حکومت نے ویزا پالیسی میں کچھ تبدیلیوں کا بھی اعلان کیا تھا۔ اسی کے تحت متحدہ عرب امارات کے گرین ویزہ میں بھی کچھ تبدیلیاں کی گئی تھیں۔
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا
متحدہ عرب امارات کی جانب سے اعلان کیا گیا تھا کہ گرین ویزہ پالیسی تین اکتوبر 2022 سے نافذ العمل ہو گئی ہے۔ اس پالیسی کے تحت ویزہ پانچ سال کی مدت کے لیے دیا جائے گا اور اس میں توسیع ممکن ہو گئی۔
پاکستان اوورسیز ایمپلائمنٹ پروموٹر آرگنائزیشن کے ترجمان محمد عدنان پراچہ نے صحافی محمد زبیر سے اکتوبر 2022 میں بات کرتے ہوئے بتایا تھا کہ گرین ویزہ پالیسی میں سابقہ ویزہ کیٹیگریز کے برعکس کچھ آسانیاں ہیں اور یو اے ای میں رہائش کی مدت میں اضافہ کیا گیا ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ اس پالیسی کے تحت کسی کو متحدہ عرب امارات سے کسی قسم کی سپانسر شپ کی ضرورت نہیں پڑے گئی بلکہ اپنی سرمایہ کاری، صلاحیت، قابلیت، تعلیم، ہنر کے ذریعے کوئی بھی فرد اپنے آپ کو اس ویزے کا اہل ثابت کر سکتا ہے۔
اس ویزہ کے لیے ہنر مند افراد، سرمایہ کار، فری لانسر، اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد درخواست دینے کے اہل ہیں۔
محمد عدنان پراچہ کے مطابق اس ویزہ کے حامل افراد اپنے ساتھی (شوہر یا بیوی) کو اپنے ساتھ یو اے ای میں ٹھہرا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ 25 سال کی عمر تک کے بچے، قریبی عزیز بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ تاہم غیر شادی شدہ بیٹیوں اور معذور بچوں کو اس سے استثنی ہو گا۔ اس ویزہ کے حامل افراد کو ویزہ کے اختتام پر چھ ماہ کی توسیع بھی مل سکتی ہے اور پانچ برس کے لیے ویزہ دوبارہ بھی دیا جا سکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ اس ویزے میں بہتر بات یہ ہے کہ اس کے حامل افراد کو متحدہ عرب امارات کے کسی بھی شہری کی ویزہ کے لیے سپانسر شپ کی ضرورت نہیں پڑے گئی۔
ویزا پالیسی میں ہونے والی یہ تبدیلیاں پاکستان کے لیے اس لیے بھی اہم ہیں کیونکہ نیم سرکاری اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ 16 سے 17 لاکھ پاکستانی روزگار کے سلسلے میں متحدہ عرب امارات میں مقیم ہیں۔
محمد عدنان پراچہ نے بی بی سی کو بتایا تھا کہ گولڈن ویزہ کے مراحل ہی ایک لاکھ درھم سے شروع ہو کر دس لاکھ درھم تک جاتے ہیں اور اُس کے بعد بھی سرمایہ کاری چاہیے ہوتی ہے۔ ’پاکستان میں کم ہی سرمایہ کاروں کے پاس اتنی بڑی رقم ہے جس وجہ سے اس ویزہ کے تحت کم ہی لوگ وہاں جاتے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ فری زون ویزہ اور جاپ ایکسپولرز ویزہ کے تحت کافی پاکستانیوں نے فائدہ اٹھایا ہے۔ ’اس میں ایک بڑی تعداد تو ان پاکستانیوں کی تھی جنھوں نے دوبئی میں رہائش رکھی ہوئی تھی مگر انھوں ہر تھوڑے عرصے بعد ویزے کا اجرا کروانا پڑتا تھا۔ اب وہ دو سال کے لیے ایک مرتبہ ہی ویزہ لے لیتے ہیں۔‘
محمد عدنان پراچہ کے مطابق ویزہ ایکسپولرز پالیسی بھی پاکستانیوں کے لیے ٹھیک رہی تھی۔ جو ہنر مند تھے۔ جن کے پاس قابلیت تھی انھیں ملازمتیں وغیرہ مل گئیں مگر جو ہنر مند نہیں تھے اور قابلیت کم تھی اُن کو مایوسی ہی کا سامنا کرنا پڑا تھا۔