اگر ہائیکورٹ جمعرات کو توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی سزا معطل کرتی ہے تو کیا وہ رہا ہو سکتے ہیں، اس سوال پر صحافی و تجزیہ کار نسیم زہرہ نے بی بی سی کو بتایا کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کے ریمارکس دیکھ کر لگتا ہے کہ شاید عمران خان کو اس کیس میں ریلیف مل جائے۔
تاہم وہ کہتی ہیں کہ چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف دیگر کیسز بھی موجود ہیں۔ ’کل نو مئی کے کیس میں اے ٹی سی نے ان کی گرفتاری منظور کی، اسی طرح سائفر کا معاملہ بھی موجود ہے۔‘
42 نیوز
ایڈووکیٹ شاہ خاور نے بی بی سی کو بتایا کہ اگر کسی سزا کی مدت کم ہو تو ضمانت ملنا قدرے آسان ہوتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’ان کا کیس یہ بنتا ہے کہ انھیں سنا نہیں گیا، عدالت میں ڈیو پراسس نہیں ہوا جبکہ گواہان پیش نہیں ہوئے۔ اس بنیاد پر استدعا کی جائے گی کہ سزا کم ہے لہذا اسے معطل کر دیا جائے اور انھیں ضمانت پر رہا کر دیا جائے۔‘
تاہم ان کی رائے میں سزا معطلی کے باوجود عمران خان کا جیل سے باہر آنا بظاہر مشکل ہے کیونکہ ایف آئی اے نے اٹک جیل میں ان کی گرفتاری ڈال کر انھیں شامل تفتیش کر رکھا ہے۔
خیال رہے کہ نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ اور سائفر گمشدگی کے دونوں کیسز میں قانون نافذ کرنے والوں ادارے نے عمران خان کو شامل تفتیش کر لیا ہے جبکہ دیگر کئی کیسز میں ان کی حفاظتی ضمانت عدم پیروی کی بنیاد پر منسوخ ہوچکی ہے۔ 42 نیوز
شاہ خاور کہتے ہیں کہ ’اگر توشہ خانہ کیس میں ان کی رہائی عمل میں آتی ہے تو اس کے باوجود وہ دوسرے مقدمات میں گرفتار رہیں گے۔‘
نسیم زہرہ کا بھی یہی خیال ہے کہ بظاہر اس کیس میں تو ریلیف مل سکتا ہے مگر اٹک جیل سے رہائی ممکن نہیں۔
ایسے میں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ آیا عمران خان اٹک جیل میں ہی قید رہیں گے یا انھیں دوسرے ٹرائلز کے دوران کسی اور جیل میں منتقل کیا جائے گا۔
اس پر قانونی ماہر شاہ خاور نے بتایا کہ اس کا فیصلہ محکمہ داخلہ کرے گا کہ آیا عمران خان کو سکیورٹی وجوہات کی بنا پر اٹک جیل میں ہی قید رکھا جائے گا یا کسی دوسری جیل منتقل کیا جائے گا۔
انھوں نے کہا کہ ایک سزا یافتہ شخص کو کسی بھی جیل میں رکھا جا سکتا ہے۔ ’سزا معطلی کی صورت میں چونکہ ایف آئی اے کا کیس اسلام آباد میں درج ہے لہذا انھیں راولپنڈی کے اڈیالہ جیل لایا جاسکتا ہے یا دوسری صورت میں ان کا جیل ٹرائل کیا جا سکتا ہے۔‘
شاہ خاور نے بتایا کہ اس کے بھی امکان موجود ہیں کہ سائفر کیس میں سکیورٹی وجوہات کی بنا پر عمران خان کا جیل ٹرائل اٹک جیل میں ہی کیا جائے۔
تاہم سابق صدر اسلام آباد ہائیکورٹ بار اور تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رکن شعیب شاہین کی رائے میں سزا معطلی کی صورت میں عمران خان کو رہا ہونا چاہیے۔
انھوں نے اپنی پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ عمران خان توشہ خانہ کیس کی وجہ سے جیل گئے اور باقی کیسز میں عدم پیروی کی بنیاد پر ان کی ضمانتیں خارج ہوئیں۔
’اصولی طور پر جب اس کیس میں رہائی ملتی ہے تو انھیں وقت دیا جائے گا کہ دوسرے کیسز میں بھی اپنی ضمانت کروا لیں۔ مگر اس ملک میں حکومت کیا کرتی ہے، ہمیں اگلے لمحے کا نہیں پتا ہوتا۔‘
دوسری طرف سابق معاون خصوصی برائے قانون عطا اللہ تارڑ نے کہا ہے کہ عمران خان توشہ کیس میں سزا معطلی کے باوجود رہا ہوتے نظر نہیں آ رہے۔ انھوں نے کہا کہ سائفر کیس میں ایف آئی آر بعد میں ہوئی جبکہ عمران خان کے وکلا نے ان کی ہدایت پر انھی دنوں میں ضمانت کی درخواست دائر کی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان اس کیس میں 30 اگست تک جوڈیشل ریمانڈ پر ہیں۔ 42 نیوز
ادھر عمران خان کی وکلا کی ٹیم میں شامل بیرسٹر گوہر خان پُرامید ہیں کہ ہائیکورٹ سابق وزیر اعظم کے خلاف فیصلہ معطل کرے گی اور انھیں رہا کرے گی۔ وہ کہتے ہیں کہ مختلف کیسز میں ان کی گرفتاری ڈالنا سیاسی انتقام سے زیادہ کچھ نہیں۔
عدالت کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے گوہر خان نے کہا کہ دیگر کیسز میں ضمانت ’ایک، ایک دن کی بات ہوگی۔‘