اٹک جیل میں قید سابق وزیر اعظم عمران خان کی توشہ خانہ کیس میں سزا معطلی کی درخواست پر سماعت آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہوگی جس سے قبل ان کے وکلا پُرامید دکھائی دیتے ہیں کہ وہ جلد ہی رہائی پا سکتے ہیں۔
یہ امکان بظاہر اسی وقت پیدا ہوا جب بدھ کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کے خلاف درخواست پر سماعت کے دوران اس میں خامیوں کی نشاندہی کی۔
ایک چیز واضح ہے کہ جیل میں قید عمران خان کو درپیش قانونی چیلنجز میں مزید اضافہ ہوا ہے۔ مثلاً بدھ کو لاہور کی انسداد دہشتگردی کی ایک عدالت نے نو مئی کو جلاؤ گھیراؤ پر درج مقدمے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم کو عمران خان کی گرفتاری اور تفتیش کی اجازت دی تھی۔
رواں ماہ وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے سائفر گمشدگی کیس میں چیئرمین تحریک انصاف کے خلاف آفیشل سیکرٹس ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر رکھا ہے۔ اس ضمن میں اسلام آباد کی ایک خصوصی عدالت نے سابق وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو چار روزہ جسمانی ریمانڈ پر ایف آئی اے کے حوالے کیا تھا
اس دوران دیگر کئی مقدمات میں ان کی حفاظتی ضمانت عدم پیروی کی بنیاد پر خارج کی جا چکی ہے۔ جیسے اسلام آباد کی احتساب عدالت اسلام آباد نے 190ملین پاؤنڈ سکینڈل میں ان کی درخواست ضمانت قبل از گرفتاری خارج کی تھی۔
42 نیوز
سپریم کورٹ نے توشہ خانہ کیس کے فیصلے پر کیا اعتراض اٹھایا؟
5 اگست کو اسلام آباد کی ضلعی عدالت نے چیئرمین تحریک انصاف کو توشہ خانہ کیس میں مجرم قرار دیتے ہوئے تین سال قید اور ایک لاکھ جرمانے کی سزا سنائی تھی۔ ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا عمران خان نے تحائف اثاثوں میں ظاہر نہیں کیے جس سے ان کی بدنیتی ظاہر ہوتی ہے۔
تاہم تحریک انصاف کے وکلا کا الزام ہے کہ جج ہمایوں دلاور نے جلد بازی میں یہ فیصلہ دیا اور گواہان کو نہ سن کر حق دفاع سے محروم کیا گیا۔
42 نیوز
’ڈرامہ کوئین‘ پوڈکاسٹ میں سنیے وہ باتیں جنہیں کسی کے ساتھ بانٹنے نہیں دیا جاتا
انھوں نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں ٹرائل کورٹ کی جانب سے حق دفاع نہ دیے جانے اور کیس کی کارروائی پر اعتراضات اٹھائے۔
بدھ کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے سربراہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ ’بادی النظر میں ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں غلطیاں ہیں۔‘
42 نیوز
ایڈیشنل سیشن جج ہمایوں دلاور کے فیصلے پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’ٹرائل کورٹ نے ایک ہی دن میں فیصلہ دیا جو درست نہیں تھا، ٹرائل کورٹ کے فیصلے میں بادی النظر میں خامیاں ہیں۔‘
بینچ میں شامل جسٹس جمال مندوخیل نے ریماکس دیے کہ ’اگر ملزم کوئی گواہ خود پیش نہیں کرتا تو عدالت گواہان کو طلب کرسکتی ہے۔ (اس کیس میں) گواہان پیش کرنے کے لیے وقت نہیں دیا گیا۔‘
سماعت کے دوران الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے مؤقف اپنایا کہ ’ٹرائل کورٹ نے فیصلے سے قبل تین بار ملزم کو موقع دیا تھا۔ ملزم کی عدم حاضری پر ٹرائل کورٹ نے توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کیا۔‘
بینچ میں شامل جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی نے استفسار کیا کہ ’ٹرائل کورٹ نے حق دفاع کے بغیر توشہ خانہ کیس کا فیصلہ کیسے کر دیا؟ ملک کی کسی بھی عدالت میں کرمنل کیس میں ملزم کو حق دفاع کے بغیر کیس کا فیصلہ نہیں ہوتا۔ توشہ خانہ کیس کے فیصلے کی اتنی جلدی کیا تھی؟‘