نسیم شاہ اپنا ہیلمٹ، گلوز اور بیٹ پھینکتے ہیں اور پاکستان کو آخری اوور میں ایک سنسنی خیز میچ جتوانے کے بعد گراؤنڈ میں خوشی اور غصے کے ملے جلے جذبات کے ساتھ دوڑنے لگتے ہیں۔
یہ ایک برس قبل ایشیا کپ میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان کھیلے جانے والے ٹی ٹوئنٹی میچ کی کہانی نہیں بلکہ دونوں ٹیموں کے درمیان سری لنکا میں ہونے والی سیریز کے دوسرے میچ کی روداد ہے۔
پاکستان نے جمعرات کو افغانستان کو ایک کانٹے کے مقابلے کے بعد ایک وکٹ سے شکست دے دی ہے۔ اس ون ڈے میچ کی کہانی میں سب کچھ تھا، ایک بہترین سنچری، نصف سنچریاں، یکے بعد دیگرے وکٹیں گرنے کے ساتھ ساتھ ’متنازع‘ رن آؤٹ اور آخری اوور کا ڈرامہ۔
42نیوز
تاہم اس میچ کی کہانی میں نسیم شاہ اپنی بیٹنگ کے باعث ایک بار پھر سب کو حیران کر گئے اور آخری اوور میں جب پاکستان کو جیتنے کے لیے 11 رنز درکار تھے اور شاداب خان نان سٹرائیکر اینڈ پر رن آؤٹ ہو چکے تھے تو نسیم نے دو چوکوں کی مدد سے یہ ہدف میچ کی سیکنڈ لاسٹ گیند پر پورا کر لیا۔
اس فتح کے ساتھ پاکستان نے ورلڈ کپ اور ایشیا کپ کے اہم ٹورنامنٹس سے قبل اہم سیریز اپنے نام کر لی ہے۔
سری لنکا کے شہر ہمبنٹوٹا میں کھیلے جانے والے میچ میں افغانستان نے ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا فیصلہ کیا تھا اور مقررہ 50 اوورز میں پانچ وکٹوں کے نقصان پر 300 رنز بنائے تھے۔
اس کے جواب میں پاکستان نے یہ ہدف اپنی اننگز کے آخری اوور میں حاصل کر لیا۔ ایک موقع پر ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ پاکستان یہ ہدف باآسانی حاصل کر لے گا لیکن بابر اعظم کی جانب سے نصف سنچری بنا کر آؤٹ ہوتے ہی پاکستان کا مڈل آرڈر لڑکھڑا گیا اور بات آخری اوور میں گیارہ رنز حاصل کرنے تک پہنچ گئی۔
پاکستان کی جانب سے شاداب خان کے عمدہ 48 رنز اور امام الحق اور بابر اعظم کی نصف سنچریاں نمایاں رہیں۔
تاہم جس بارے میں اس وقت سب سے زیادہ بات کی جا رہی ہے وہ شاداب خان کا رن آؤٹ اور نسیم شاہ کی ایک مرتبہ پھر آخری اوور میں عمدہ بیٹنگ ہیں۔ پہلے شاداب خان کے رن آؤٹ کے بارے میں بات کرتے ہیں جو میچ کے انتہائی نازک موقع پر کیا گیا۔
شاداب خان کا نان سٹرائکر اینڈ پر رن آؤٹ متنازع تھا؟
یہ میچ کے آخری اوور کے شروع سے پہلے کی بات ہے جب افغان کھلاڑی بولر فضلِ حق فاروقی کے گرد جمع ہو کر ایک میٹنگ کر رہے تھے۔
گذشتہ اوور کے آغاز پر پاکستان کو 12 گیندوں پر 27 رنز چاہیے تھے اور اس کے صرف دو کھلاڑی باقی تھے لیکن شاداب خان کی جارحانہ بیٹنگ کے باعث پاکستان نے اس اوور میں 16 رنز بنائے اور اب جیت کے لیے اسے آخری اوور میں 11 رنز درکار تھے۔
42نیوز
اس چھوٹی سی میٹنگ میں شاید یہ بات بھی موضوعِ بحث آئی ہو کہ شاداب خان اس سے پہلے بھی بولر کی جانب سے گیند کروانے سے پہلے کریز سے باہر نکل رہے تھے اور اب کیونکہ وہ نان سٹرائیکر اینڈ پر ہیں اور یقیناً رن لینے کے لیے دوڑنے کی کوشش کریں گے تو انھیں وہیں بولر کی جانب سے رن آؤٹ کیا جا سکتا ہے۔
بلے باز کو نان سٹرائیکر اینڈ پر رن آؤٹ کرنے کی ایک طویل تاریخ ہے۔ انڈین کرکٹ ٹیم نے جب سنہ 1947-48 میں آسٹریلیا کا دورہ کیا تھا تو اس دوران انڈین بولر ونو منکڈ نے دو مرتبہ نان سٹرائیکر اینڈ پر موجود بل براؤن کو رن آؤٹ کیا تھا۔
ایک مرتبہ ایسا ایک سائیڈ میچ کے دوران جبکہ دوسری مرتبہ دونوں ٹیموں کے درمیان کھیلے گئے ایک ٹیسٹ میچ میں کیا گیا تھا۔ اس وقت آسٹریلین میڈیا نے اس طریقے سے رن آؤٹ کرنے کے انداز کو ’منکڈنگ‘ کا نام دیا تھا اور اسے تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔
تاہم لیجنڈ بلے باز اور اس آسٹریلین ٹیم کے کپتان ڈان بریڈمین نے اپنی کتاب ’فئیر ویل ٹو کرکٹ‘ میں کہا تھا کہ ’اگر گیند کروانے سے پہلے نان سٹرائیکر کو کریز میں رہنا ہے تو پھر اس کے رن آؤٹ کو غیر منصفانہ کیسے کہا جا سکتا ہے۔‘
ان کی جانب سے اس دفاع کے باوجود رن آؤٹ کرنے کا یہ انداز نہ صرف جاری رہا بلکہ اس کا نام ہی منکڈنگ پڑ گیا۔
تاہم کے بعد بولر کی جانب سے نان سٹرائیکر اینڈ پر کھڑے بلے باز کو گیند پھینکنے سے قبل رن آؤٹ کرنا باقاعدہ طور پر رن آؤٹ قرار دیا جانے لگا۔ 42نیوز
تاہم اب بھی یہ طریقہ کار متنازعہ ہی رہتا ہے اور اس بارے میں کچھ افراد اور کھلاڑیوں کا خیال ہے کہ ’سپرٹ آف کرکٹ‘ کے منافی ہے۔ کچھ افراد یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس سے قبل بلے باز کو وارننگ دینی چاہیے جبکہ اس بارے میں یہ رائے بھی موجود ہے کہ جب یہ قواعد کے اعتبار سے درست ہے تو بولر کو اس کا استعمال کرنا چاہیے۔
اس بارے میں یہ رائے بھی خاصی عام ہے کہ جب بولر کو نو بال کرنے کے باعث نہ صرف گیند دوبارہ کروانی پڑتی ہے بلکہ مخالف ٹیم کو ایک رن بھی اضافی دیا جاتا ہے تو بلے باز کو بھی غیر ضروری فائدہ حاصل کرنے پر سزا ملنی چاہیے۔
تاہم آرا اب بھی منقسم ہیں اور ایسا رن آؤٹ جب بھی ہو تو سوشل میڈیا پر بہت لے دے ہوتی ہے، جو اس وقت بھی جاری ہے۔ ایک صارف نے ’اس بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ آج سپرٹ آف کرکٹ کا جنازہ نکل گیا۔‘