میرے بل میں بحلی کی قیمت جتنے تو ٹیکس ہیں۔‘
’بجلی 18 ہزار کی خرچ ہوئی، 16 ہزار کے ٹیکس بل میں شامل کر کے بجلی کا بل 34 ہزار آیا ہے اور اب قیمتوں میں حالیہ پانچ روپے 40 پیسے فی یونٹ اضافہ بھی کر دیا گیا ہے۔‘
کسی شخص کا تعلق آمدن کے اعتبار سے کسی بھی طبقے سے ہو، بجلی کے بل میں چھپے اخراجات سے ہر کوئی حیران اور پریشان نظر آتا ہے۔
نوبت یہاں تک آن پہنچی ہے کہ آئیسکو یعنی اسلام آباد میں بجلی فراہم کرنے والی کمپنی نے باقاعدہ خط لکھ کر پولیس سے درخواست کی ہے کہ ان کے دفاتر پر پولیس کی نفری تعینات کی جائے۔
اس خط کے مطابق ’صارفین مختلف دفاتر میں بلوں پر احتجاج کر رہے ہیں اور کمپنی کے ملازمین بے چینی محسوس کر رہے ہیں۔‘ 42 نیوز
آئیسکو راولپنڈی کے سپریٹنڈنٹ انجینیئر کی جانب سے سٹی پولیس افسر راولپنڈی کو لکھے جانے والے اس خط میں صورتحال کو ’الارمنگ‘ قرار دیا گیا ہے جس میں آئیسکو کی تنصیبات کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ظاہر کرتے ہوئے تمام دفاتر پر پولیس کی نفری تعینات کرنے کی درخواست کی گئی ہے۔
آئیسکو کی بے چینی اپنی جگہ لیکن واضح رہے کہ پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کے دور میں بجلی کی قیمت میں اوسطا سو گنا تک اضافہ ہونے کے بعد نگران حکومت نے بھی فی یونٹ قیمت کو مذید بڑھایا جس کے علاوہ بجلی پیدا کرنے کے لیے درآمدی فیول جیسے گیس، کوئلہ اور فرنس آئل کی قیمتوں میں اضافہ بھی رواں ماہ کے بجلی کے بل میں ہوش ربا اضافے کی ایک وجہ بنا۔
بی بی سی اردو نے اسلام آباد الیکٹرک سپلائی کمپنی کے ایک صارف، جن کا نام ظاہر نہیں کیا جا رہا، کے بل کا معائنہ کیا جن کے مطابق جولائی کے مقابلے میں اگست کے مہینے میں انھوں نے 200 یونٹ کم بجلی استعمال کی لیکن ان کا بل گذشتہ ماہ کی نسبت آٹھ ہزار روپے زیادہ تھا۔ 42 نیوز
ان صارف کے بل کے مطابق جولائی کے مہینے میں انھوں نے 994 یونٹ استعمال کیے اور ان کا بجلی کا بل 42353 روپے تھا۔
تاہم اگست کے مہینے کے بل کے مطابق انھوں نے 782 یونٹ استعمال کیے لیکن اُن کا بجلی کا بل 48583 روپے تھا۔
کچھ ایسی ہی شکایات دیگر صارفین کی جانب سے بھی سننے کو ملیں جبکہ ملک بھر میں بجلی کے بل کے خلاف احتجاج ہوئے۔
بی بی سی سے بات کرنے والے صارف کے مطابق بجلی کی قیمت تو ایک طرف، بل میں موجود ٹیکسوں کی بھرمار ہی بل کا حجم کسی عام فرد کی جیب پر قیامت ڈھانے کے لیے کافی نظر آتی ہے۔
اس بل کے مطابق بجلی کی قیمت 28543 روپے جبکہ مجموعی بل 48583 روپے کا ہے۔
تو آخر یہ ماجرا کیا ہے اور بجلی کے بل میں کون کون سی مد میں اور کیوں پیسے وصول کیے جا رہے ہیں؟
واضح رہے کہ بجلی کے بل میں فی یونٹ کی قیمت استعمال کے ساتھ ساتھ بڑھتی ہے۔ یعنی جیسے جیسے استعمال شدہ یونٹ بڑھتے جائیں گے، ویسے ہی یونٹ کی قیمت بھی بڑھتی رہتی ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ بجلی کے بل میں ایک حصہ بجلی فراہم کرنے والی کمپنی کو وجب الادا رقم ہوتی ہے جبکہ دوسری طرف براہ راست حکومتی محصولات ہوتے ہیں جو بجلی کے بل کے ذریعے صارف سے وصول کیے جاتے ہیں۔
بجلی کی قیمت کے علاوہ بل میں ایک اہم چیز فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ہے جو بجلی پیدا کرنے کے ذرائع یعنی ایندھن جیسا کہ کوئلہ، فرنس آئل یا گیس کی لاگت پر منحصر ہوتی ہے جس کا تخمینہ ہر ماہ لگایا جاتا ہے اور پھر صارف سے وصول کر لیا جاتا ہے۔ 42 نیوز
اس معاملے میں روپے کی قدر بھی اہمیت کی حامل ہے۔
دوسری جانب ’فنانسنگ کاسٹ سرچارج‘ کی مد میں فی یونٹ 0.43 پیسے صارفین سے وصول کیے جاتے ہیں جو دراصل گردشی قرضے کو کم کرنے کے لیے لگایا گیا ہے۔ کے الیکٹرک کی جانب سے جارہ کردہ بلوں میں یہ رقم ’پی ایچ ایل ہولڈنگ‘ کے نام پر لی جاتی ہے۔
اسی طرح سہ ماہی یا ’کوارٹرلی ٹیرف ایڈجسٹمنٹ‘ یا ’ڈی ایم سی‘ کی مد میں بھی صارفین سے اس وقت پیسے وصول کیے جاتے ہیں جب حکومت بجلی کی قیمت میں رد و بدل کرتی ہے۔
دوسری جانب چند اخراجات یا ٹیکس ایسے ہیں جو براہ راست حکومت کی جانب سے عائد کیے جاتے ہیں اور ان کا بجلی فراہم کرنے والی کمپنی سے کوئی براہ راست تعلق نہیں ہوتا۔
اگر ہم مثال کے طور پر لیے جانے والے بل کی بات کریں تو اس میں سب سے زیادہ ٹیکس جنرل سیلز ٹیکس کی مد میں وصول کیا جا رہا ہے جو 18 فیصد کے حساب سے 5768 روپے ہے۔
اس کے علاوہ اگر آپ ٹیکس فائلر نہیں ہیں، تو بجلی کے بل میں انکم ٹیکس بھی لگ کر آئے گا۔
بی بی سی سے بات کرنے والے صارف کے بل میں انکم ٹیکس کی مد میں 2836 روپے درج کیے گئے ہیں۔
- 42 نیوز
انکم ٹیکس کی بجلی کے بلوں کی ذریعے وصولی بھی ایک متنازع عمل ہے کیوںکہ جس صارف نے بی بی سی بات کی ان کے مطابق وہ خود تو ٹیکس فائلر ہیں لیکن جن مالک مکان کے نام پر بجلی کا میٹر ہے، ان کی وفات کو کئی برس بیت چکے ہیں۔
واضح رہے کہ 25 ہزار روپے سے زیادہ کے بجلی کے بل پر ہی انکم ٹیکس لگتا ہے اور یہ مجموعی بل کی لاگت کا ساڑھے سات فیصد ہوتا ہے۔
اسی طرح حکومت دو اور مدوں میں بھی صارف سے براہ راست پیسے وصول کرتی ہے جن میں سے ایک تو فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے اوپر لگایا جانے والا جی ایس ٹی ہے اور دوسرا ٹی وی فیس ہے۔
یوں زیر غور بل میں حکومتی محصولات مجموعی طور پر 8834 روپے بن جاتے ہیں۔ 42 نیوز
ایسے میں جب ایک سوشل میڈیا صارف نے لکھا کہ ’بجلی کا بل راتوں کی نیند اڑانے کے لیے کافی ہے‘ تو شاید انھوں نے ملک کی اکثریت کی ترجمانی کی۔