انڈیا کی جانب سے پیاز کی برآمد پر پابندی کے بعد ایشیائی خریداروں کے لیے سبزیوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گیا ہے جو اس کے سستے متبادل کی تلاش میں ہیں، اور اہم بات یہ ہے کہ آئندہ سال عام انتخابات سے قبل ان پابندیوں کو ہٹائے جانے کا امکان نہیں ہے۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ پیاز برآمد کرنے والے ملک انڈیا نے پیداوار میں کمی اور مقامی مارکیٹ میں اس کی قیمت میں تین ماہ کے دوران دو گنا سے بھی زیادہ اضافے کے بعد 8 دسمبر کو اس کی برآمد پر پابندی عائد کردی تھی۔
اب کھٹمنڈو سے کولمبو تک چھوٹے دُکان دار پہلے سے زیادہ قیمت پر پیاز خرید رہے ہیں، کیونکہ روایتی ایشیائی خریدار جیسے کہ بنگلہ دیش، ملائیشیا اور نیپال اور یہاں تک کہ متحدہ عرب امارات ملک میں پیاز کی کمی کو پورا کرنے کے لیے اسے انڈیا سے درآمد کرتے ہیں۔
بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں نجی شعبے میں کام کرنے والی موسومی اختر نے کہا کہ ’کھانے پکانے کی ہر چیز کے لیے پیاز کی ضرورت ہوتی ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے کہ ’پیاز کی قیمت میں اس اچانک اضافے نے صورت حال کو مشکل بنا دیا ہے اور اب مجھے اس کی مقدار میں کمی کرنا پڑی ہے۔‘
ملائیشیا کی ڈشز، بنگلہ دیشی بریانی سے نیپال کی چِکن مرچ یا سری لنکا کی فش کری تک، ایشیائی صارفین کا اپنے پسندیدہ کھانوں کو مزے دار بنانے کے لیے انڈیا سے پیاز کی ترسیل پر انحصار بڑھ گیا ہے۔
تاجروں کے اندازے کے مطابق تمام ایشیائی ممالک کی پیاز کی پیداوار میں آدھے سے زیادہ حصہ انڈیا کا ہے۔ تاجروں کا کہنا ہے کہ چین اور مصر کے مقابلے میں انڈیا سے پیاز کی ترسیل کا کم دورانیہ اس کے ذائقے کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔