پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) کے صدر اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ’انہیں عمران خان کے دور حکومت میں پی ٹی آئی سے اتحاد اور چھ وزاتیں لینے کی پیش کش ہوئی جو انہوں نے پہلے دن سے قبول نہیں کی۔‘
جمعرات کے روز جیو ٹی وی کے ’کیپیٹل ٹاک‘ میں میزبان حامد میر کو ایک انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ ’مجھے ملک سے باہر جانے کا بھی کہا گیا لیکن میں اپنے کارکنوں کو چھوڑ کر باہر نہیں جا سکتا تھا۔‘
سابق صدر نے کہا کہ انہوں نے عمران خان کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد کا فیصلہ اس لیے کیا کیونکہ اگر ان کو نہ نکالتے تو وہ ایک فوجی کے ساتھ مل کر ’آر اوز‘ کا الیکشن کروا کر 2028 تک حکومت میں رہتے۔‘
’عمران خان ہر چیز میں ڈیفالٹ کرچکا تھا، نہ ایکسپورٹس تھیں، نہ زرمبادلہ تھا اور نہ ہی مدد کرنے والے دوست تھے۔‘
ایک سوال کے جواب میں آصف علی زرداری کا کہنا تھا کہ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ بلاول بھٹو زرداری تین ’پی‘ والی پیپلز پارٹی کے چیئرمین ہیں اور میں چار ’پی‘ والی پیپلز پارٹی کا صدر ہوں۔ ’ٹکٹ دینے کا اختیار میرے پاس ہے اور بلاول بھٹو کو ٹکٹ میں ہی دوں گا۔‘
آصف زرداری کا مزید کہنا تھا کہ نوجوان نسل کو اپنی سوچ کے اظہار کا حق حاصل ہے۔
’نئی نسل کی سوچ ہے بابا کو کچھ نہیں آتا، بابا کو کچھ نہیں پتا۔‘ ایک سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ انہیں یقین ہے کہ انتخابات 8 فروری کو ہی ہوں گے۔
صدر پاکستان پیپلز پارٹی (پارلیمنٹیرینز) کے مطابق ’انہوں نے گذشتہ حکومت کو ملکی صورت حال سنبھالنے کے لیے کئی مشورے دیے جنہیں نہیں مانا گیا اور نقصان ہوا۔‘
ایک سوال کے جواب میں آصف زرداری کا کہنا تھا کہ ’اگلی حکومت کے لیے سیاسی جماعتوں کو ایک دوسرے سے مدد لینا پڑے گی اور پیپلز پارٹی کو کمزور نہیں سمجھنا چاہیے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’حکومت بنانے کے لیے 172 اراکین کی حمایت اکیلے نہ پیپلز پارٹی حاصل کر سکتی ہے نہ ن لیگ، نہ مولانا اور نہ ہی کوئی اور۔‘
آصف زرادری کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’مسلم لیگ ن کو اب پیپلز پارٹی کو موقعہ دینا چاہیے کیونکہ پہلے ہم نے انہیں موقع دیا اس لیے اب ان کی باری ہے۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں سابق صدر نے کہا کہ ’بلاول بھٹو زرداری ابھی تربیت یافتہ نہیں ہیں اور اس کے لیے وہ وقت لیں گے۔‘
انہوں نے کہا کہ’ پیپلز پارٹی نے بلوچستان کے نو اضلاع میں ضلع کونسل کے انتخابات جیتے ہوئے ہیں اور ان اضلاع کے لوگ ان کے ساتھ ہیں۔‘
’بلوچستان کے جو لوگ ان کی بجائے ن لیگ کے ساتھ گئے ہیں ان کو لگا کہ شاید پیپلز پارٹی انہیں کم تحفظ دے سکتی تھی۔‘
ایک اور سوال کے جواب میں آصف زرداری نے کہا کہ وہ آج بھی کہتے ہیں کہ محسن نقوی ان کا بیٹا ہے اور پیپلز پارٹی کے جو لوگ ان پر تنقید کرتے ہیں ان کو حقائق کا نہیں پتا۔
انہوں نے کہا کہ عبوری حکومت کا کام دوسروں کے کام کرنا نہیں بلکہ غیر جانبدار رہنا ہے اور یہ دیکھنا ہے کہ کسی کے ساتھ زیادتی نہ ہو۔