پاکستان کے سابق وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ اُن کی مقدمات بھگتنے، جیلوں اور اپوزیشن میں رہنے کی مدت اقتدار کی مدت سے زیادہ ہے۔
سینچر کو سیالکوٹ میں ورکرز کنونشن سے خطاب میں سابق وزیراعظم اور ن لیگ کے قائد نے کہا کہ اُن کو سنہ 1993، سنہ 1999 اور سنہ 2017 میں اقتدار سے نکالا گیا مگر انہوں نے ہمت نہیں ہاریان کا کہنا تھا کہ ’سنہ 2017 کے بعد سے جو سلسلہ ہمارے خلاف شروع ہوا وہ کچھ دن پہلے ختم ہوا۔ بلاوجہ یہ سب کچھ ہوا۔ کچھ سمجھ نہیں آتی کہ یہ کیوں کیا گیا۔‘ نواز شریف نے کہا کہ ترانوے میں کیا یہ وجہ تھی کہ موٹروے بنا رہے تھے؟ ملک کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کیا تھا اس لیے حکومت ختم کی گئی۔ ’بلاوجہ حکومت ختم کی گئی، اگر وہ رفتار جاری رہتی تو آج پاکستان دنیا کی مضبوط ترین طاقتوں میں سے ایک طاقت ہوتا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’ہم نے خود اپنے ملک کو پٹری سے اُتارا اور پٹری ہی اکھاڑ دی۔ اس طرح تو ایک گھر، ایک فیکٹری اور ایک ادارہ نہیں چلتا ملک کیسے چلے گا۔‘ ن لیگ کے قائد نے کہا کہ ’اب ہمارے پاس غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، جیسا کہ اقبال نے کہا تھا کہ تمہاری داستاں تک نہ ہو گی داستانوں میں۔‘ ان کا سوال تھا کہ کیا اس لیے قربانیاں دی تھیں کہ ملک کا یہ حشر دیکھیں گے۔ ’سنہ 2017 میں ملک مضبوط تھا اور روپے ڈالر کے مقابلے میں ایک سو چار روپے کا تھا اور پاکستان میں مہنگائی نام کی چیز نہیں تھی۔ ہمیں نکال کے ایسے بندے کو لے آتے ہیں جس کو سوائے گالیاں دینے کے کچھ نہیں آتا، جب بھی بولتا ہے گالیاں دیتا ہے۔‘ نواز شریف نے کہا کہ ملک کو واپس ڈگر پر کیسے لائیں اس پر سوچتے رہتے ہیں۔ بار بار غلطیاں کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ ان کا کہنا تھا کہ ’دل زخمی ہونے کے ساتھ افسوس بھی ہے کہ ہم کیا کرنے جا رہے تھے۔ بہت بھاری نقصان ہو گیا ہے اور اس کو پورا کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔‘ ن لیگ کے قائد نے کہا کہ اپنے ملک کو ایسے لوگوں کے حوالے نہیں کر سکتے جو ہماری قدروں کو پامال کریں اور ہمارے کلچر کو بگاڑ دیں۔‘ نواز شریف نے کہا کہ خوشی ہے کہ پہلی دفعہ لاہور سے سیالکوٹ موٹروے کے ذریعے آئے۔