رواں سال نومبر میں کراچی کے علاقے اورنگی ٹاون میں ایک تاجر کی جانب سے پولیس کو درخواست دی گئی جس میں پولیس کو بتایا گیا کہ ان کے گھر نامعلوم افراد سادہ اور پولیس کی وردی میں داخل ہوئے۔ گھر کی تلاشی لی اور گھر سے تقریبا دو کروڑ روپے کی نقدی اور سونا لے کر چلے گئے۔
تاجر محمد شاکر کی جانب سے پولیس کو مزید بتایا گیا کہ گھر میں داخل ہونے والے افراد اپنے ہمراہ انہیں اور ان کے بھائی کو بھی لے گئے تھے، بعد ازاں ان دونوں بھائیوں کو شاہراہ فیصل بلوچ کالونی کے قریب گاڑی سے اتار دیا گیا تھا۔
واقعہ کی رپورٹ درج ہونے کے بعد پولیس کے اعلیٰ افسران نے کیس کا نوٹس لیا اور ایس ایس ساؤتھ عمران قریشی سمیت زیر تربیت ڈی ایس پی اور دیگر پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا گیا۔
کیس کی تحقیقات کی ذمہ داری ضلع غربی کے ڈی آئی جی کے سپرد کی گئی۔ ڈی آی جی ویسٹ نے مدعی مقدمہ سمیت پولیس افسران اور اہلکاروں سے تفتیش کی اور رپورٹ آئی جی سندھ کو ارسال کر دی۔ ڈی آئی جی ویسٹ کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ تاجر محمد شاکر کے گھر ڈکیتی میں پولیس افسران و اہلکار ملوث رہے ہیں۔ رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ پولیس کی جانب سے تاجر پر ایک سیاسی جماعت کے فنانسر ہونے کا الزام بھی لگایا گیا ہے جس کے شواہد نہیں ملے ہیں۔
واقعہ کے میڈیا میں رپورٹ ہونے کے بعد پولیس کی جانب سے ایس ایس پی ساؤتھ عمران قریشی کو عہدے سے ہٹایا گیا اور زیر تربیت ڈی ایس پی عمیر طارق باجاری کو باقاعدہ گرفتار کرلیا گیا تھا۔
جامعہ کراچی شعبہ جُرمیات کی پروفیسر ڈاکٹر نمائمہ شہریار نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں سی ایس ایس افسران کے خلاف اکثر مقدمات باآسانی سی کلاس ہو جاتے ہیں یا ختم ہوجاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک کیس یہ اورنگی ٹاون کے تاجر کا بھی دیکھنے میں آرہا ہے۔
’ملک میں موجودہ نظام میں مدعی مقدمہ کے لیے طاقتور مخالف کے خلاف کیس لڑنا اور جیتنا آسان نہیں ہوتا ہے۔ پھر پیٹی بند بھائی اپنے پیٹی بند بھائی کے ساتھ بھی کھڑے رہتے ہیں۔ کئی بار مدعی مقدمہ کو مختلف طریقوں سے ڈریا دھمکایہ بھی جاتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ تاجر کے گھر ڈکیتی کا کیس اپنی نوعیت کا منفرد کیس اس لیے بھی ہے کہ اس واقعہ کے بعد پولیس کی جانب سے مدعی کو ایک بڑی رقم بھی واپس لوٹائی گئی ہے۔ اور پولیس کی اپنی تیار کی گئی رپورٹ بھی پولیس افسران کے خلاف ہی جارہی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہوگا کہ اس کیس کا نتیجہ ماضی کے کیسز کی طرح ہوتا ہے یا پھر کچھ مختلف ہوتا ہے۔