اقوام متحدہ کے ایلچی برائے یمن ہانس گرنڈ برگ نے کہا ہے کہ ’یمن کے متحارب فریقوں نے ایک نئی جنگ بندی کا عہد اور اقوام متحدہ کی زیر قیادت امن عمل میں شامل ہونے پر اتفاق کیا ہے’۔اقوام متحدہ کے ایلچی کا یہ اعلان سعودی عرب اورعمان میں یمن کی صدارتی کونسل کے سربراہ رشاد العلیمی اورحوثی باغیوں کے چیف مذاکرات کار محمد عبدالسلام کے ساتھ حالیہ ملاقاتوں کے بعد سامنے آیا ہے۔
ان کے دفتر سے جاری بیان کے مطابق ہانس گرنڈ برگ نے کہا کہ ’وہ یمن بھر میں جنگ بندی پرعملدرآمد کے اقدامات اور ایک جامع سیاسی عمل کی بحالی کی تیاریوں کے لیے فریقین کے عزم کا خیرمقدم کرتے ہیں‘۔
بیان یمں مزید کہا گیا کہ ’اب ہانس گرنڈ برگ اقوام متحدہ کے زیر اہتمام ایک روڈ میپ کےلیے فریقین کے ساتھ بات چیت کریں گے‘۔
بیان کے مطابق ’اس میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی، باغیوں کے زیر قبضہ شہر تعز اور یمن کے دیگر حصوں میں راستے کھولنے اور تیل کی برآمدات دوبارہ شروع کرنے کے وعدے شامل ہیں‘۔
اقوام متحدہ کی ثالثی میں ہونے والی جنگ بندی جو اپریل 2022 میں نافذ ہوئی اس سے کشیدگی میں تیزی سے کمی آئی۔ جنگ بندی کی معیاد گزشتہ سال اکتوبر میں ختم ہوگئی تھی تاہم لڑائی بڑی حد تک رکی ہوئی ہے۔
گرانڈ برگ نے مزید کہا کہ’ یمنی عوام اس نئے موقع کو دیکھ رہے ہیں اور انتظار کر رہے ہیں جو ٹھوس نتائج اور دیرپا امن کی طرف پیش رفت کرے‘۔
یہ معاہدہ ایسے وقت ہوا ہے جب حوثی باغیوں کی جانب سے غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی کےلیے بحیرہ احمر کے اہم راستوں پر بحری جہازوں پر حملوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اسرائیل سے منسلک بحری جہاز یا اسرائیلی بندرگاہوں کی طرف جانے والے بحری جہاز حوثیوں کا ہدف ہیں۔
پیٹناگون کے مطابق حوثیوں نے 100 سے زیادہ ڈرون اور میزائل حملے کیے ہیں جن میں 35 سے زیاہ مختلف ملکوں کے 10 تجارتی جہازوں کو نشانہ بنایا گیا ہے۔